Tuesday, December 18, 2012

جلال آتش و برقِ سحاب پیدا کر

0 پوسٹ پر آراء

جلال آتش و برقِ سحاب پیدا کر
اجل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر


ترے خرام میں ہے زلزلوں کا راز نہاں
ہر ایک گام پر اک انقلاب پیدا کر


صدائے تیشۂ مزدور ہے ترا نغمہ
تو سنگ و خشت سے چنگ و رباب پیدا کر


بہت لطیف ہے اے دوست تیغ کا بوسہ
یہی ہے جانِ جہاں اس میں آب پیدا کر

ترے قدم پہ نظر آئے محفلِ انجم
وہ بانکپن، وہ اچھوتا شباب پیدا کر

ترا شباب امانت ہے ساری دنیا کی
تو خارزارِ جہاں میں گلاب پیدا کر

سکون خواب ہے بے دست و پا ضعیفی کا
تو اضطراب ہے خود اضطراب پیدا کر

نہ دیکھ زہد کی تو عصمتِ گنہ آلود
گنہ میں فطرتِ عصمت مآب پیدا کر

ترے جلو میں نئی جنتیں، نئے دوزخ
نئی جزائیں، انوکھے عذاب پیدا کر

شراب کھینچی ہے سب نے غریب کے خوں سے
تو اب امیر کے خوں سے شراب پیدا کر

گرا دے قصرِ تمدن کہ اک فریب ہے یہ
اٹھا دے رسمِ محبت، عذاب پیدا کر

جو ہو سکے ہمیں پامال کر کے آگے بڑھ
نہ ہو سکے تو ہمارا جواب پیدا کر

بہے زمیں پہ جو میرا لہو تو غم مت کر
اسی زمیں سے مہکتے گلاب پیدا کر

تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر


(اسرار الحق مجاز)

0 پوسٹ پر آراء:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر Ú©ÛŒ رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ Ú©Û’ کمپوٹر میں اردو Ú©ÛŒ بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے Ú©Û’ لیے ذیل Ú©Û’ اردو ایڈیٹر میں تبصرہ Ù„Ú©Ú¾ کر اسے تبصروں Ú©Û’ خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔