Monday, January 7, 2013

سیاسی منشور:سنہرے خواب یا حقیقی لائحۂ عمل؟

0 پوسٹ پر آراء
روٹی کپڑا اور مکان، تبدیلی، اسلامی نظام، امن اور استحکام، معاشی ترقی اور کرپشن کا خاتمہ۔ یہ وہ سنہرے خواب ہیں جو انتخابات سے پہلے ہر بار عوام کو دکھائے جاتے ہیں اور اب تو یہ نعرے اس حد تک استعمال ہوچکے ہیں کہ اپنے معنی بھی کھو چکے ہیں۔

ماضی میں تو اکثر جماعتیں انھی نعروں کی بنیاد پر انتخابات اور لوگوں کے دل جیتتی رہی ہیں لیکن اس مرتبہ جبکہ پاکستان میں جہموریت اور جمہوری رویے دھیرے دھیرے طاقت پکڑ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ماضی کی نسبت اپنی پارٹیوں کے منشور کی تیاری پر زیادہ توجہ دیتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کی چیئرپرسن ڈاکٹر عنبرین جاوید کہتی ہیں ’ہمارے سیاسی کلچر میں منشور کی اہمیت ویسی نہیں جیسے ترقی یافتہ جمہوریتوں میں ہے۔ ہمارے ہاں منشور مذاق کی طرح ہیں۔ پہلے ہوتے ہی نہیں تھے اب بہتری ہوئی ہے اور جماعتیں منشور کو پہلے سے زیادہ اہمیت دے رہی ہیں۔‘

اس وقت پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے منشور کی تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس مرتبہ ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جماعتیں عوام کے سامنے کیا نعرے اور پروگرام پیش کریں گی؟

پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز اپنے منشور پر کافی حد تک کام مکمل کرچکی ہیں۔


پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے عوام اس وقت تین مسائل یعنی کرپشن، لوڈشیڈنگ اور دہشتگردی کا حل چاہتے ہیں اور مسلم لیگ ن اپنے منشور میں ان مسائل کا حل اس طرح دے گی کہ لوگوں کو یہ سمجھ آئے گا کہ ہم ان مسائل کے حل میں مخلص ہیں۔ ہم یہ نہیں کہیں گے ہم نو دن میں کرپشن ختم کردیں گے ہم نوے دن میں لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے ہم ایک پورا لائحہ عمل لائیں گے اور عوام سے شیئر کریں گے۔‘

تحریک انصاف نے اپنی پالیسییوں اور منشور کی تیاری کے لیے باقاعدہ ایک تھنک ٹینک قائم کررکھا ہے۔

تحریک انصاف کے ترجمان شفقت محمود کہتے ہیں ’تحریک انصاف کا بنیادی نکتہ انصاف اور قانون کی حکمرانی ہے۔ انصاف کا مطلب معاشی، تعلیمی اور صحت میں انصاف۔ ہمارے ملک میں امیر آدمی بڑے بڑے جرائم کرے اربوں روپے کھا جائے کوئی نہیں پوچھتا اور چھوٹے چور کو سزا مل جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر انصاف یہ ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں ۔ یہی تحریک انصاف کے منشور کی بنیاد ہے۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کو ستّر کی دہائی میں جتنی مقبولیت ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کے نعرے کی بدولت حاصل ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی۔

گذشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اپنے ایحنڈے کو ’فائیو ایز‘ (E) یعنی ایمپلائمنٹ، ایجوکیشن، انرجی، انوائرمنٹ اور ایکوالٹی کی بنیاد پر آگے بڑھایا جبکہ صوبائی خودمختاری بھی ایک اہم نکتہ رہی۔


پیپلز پارٹی کے فائیو ایز



گذشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اپنے ایحنڈے کو ’فائیو ایز‘ (E) یعنی ایمپلائمنٹ، ایجوکیشن، انرجی، انوائرمنٹ اور ایکوالٹی کی بنیاد پر آگے بڑھایا جبکہ صوبائی خودمختاری بھی ایک اہم نکتہ رہی۔

پیپلزپارٹی کی منشور کمیٹی کے رکن تنویر اشرف کائرہ کا کہنا ہے ’پیپلزپارٹی کی جماعت نے اپنے حالیہ دور حکومت میں صوبائی خودمختاری کا وعدہ پورا کردیا۔ ہماری حکومت نے اختیارات صوبوں کو منتقل کیے اس مرتبہ فائیو ایز کے ساتھ پیپلزپارٹی اختیارات کو مزید نچلی سطح تک منتقل کرنے کے لیے پالسیاں بنائے گی۔ یعنی اضلاع اور ڈویزنز کی سطح پر اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم۔ پیپلزپارٹی اپنے منشور میں دیہی اور شہری تفریق کے خاتمے کے لیے بھی لائحہ عمل دے گی۔ ہم دوسری جماعتوں کے منشور بھی دیکھیں گے اور ان کے مطابق بھی اپنے منشور کو بہتر بنائیں گے۔‘

مسلم لیگ قاف کی قیادت پنجاب میں شہباز شریف کی پالیسیوں اور بڑے ترقیاتی منصوبوں کو ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیتی رہی ہے اور ان کا موازنہ اپنے گذشتہ پانچ سالہ دور حکومت سے کرتی رہی ہے۔ اس مرتبہ بھی قاف لیگ دوہزار دو سے دو ہزار آٹھ تک کے دور حکومت کی پالسیویں کا تسلسل اپنے منشور کا حصہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

قاف لیگ کے مشیر رضوان ممتاز کہتے ہیں ’مسلم لیگ قاف نے عوام کی ضروریات اور رجحانات جاننے کے لیے باقاعدہ سروے کیا ہے اور اسی سروے کی روشنی میں ہی ان کی جماعت اپنے منشور کی تیاری کررہی ہے۔ ق لیگ کا منشور انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ترقی، نوجوانوں کے مسائل کا حل، معاشی نظام کی بہتری، اور فلاحی معاشرے کی تشکیل کے لیے پالسیوں پر مبنی ہوگا۔‘


سیاسیات کے ماہرین کا ماننا ہے کہ اس مرتبہ بڑی تعداد میں نوجوان ووٹرز کی موجودگی آئندہ انتخابات کو ماضی کے انتخابات سے کئی حوالوں سے مختلف بنائے گی ۔

ڈاکٹر عنبرین جاوید کے مطابق آئندہ انتخابات میں کچھ جگہوں پر منشور اہم ہوگا۔ ’دیہی اور شہری علاقوں اور مختلف صوبوں میں مختلف رجحانات دیکھنے میں آئیں گے۔ جہاں جہاں پڑھے لکھے نوجوان ووٹرز سامنے آئیں گے وہ منشور کو اہمیت دیں گے جبکہ دیہی علاقوں میں لوگوں کو منشور کا پتہ بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کے لیے منشور کی کوئی اہمیت۔‘

حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تو ایک مرتبہ پھر جماعتوں سے روایتی وابستگی ذات اور برادری ہی حاوی دکھائی دی۔

حامد خان کا خاندان برس ہا برس سے پیپلزپارٹی سے وابستہ ہے وہ ناراض جیالوں کے ایک جلسے میں شرکت کے لیے گوجرہ سے لاہور آئے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو کیا دیا اور کیا وہ ناراضگی کے باوجود آئندہ ووٹ پیپلزپارٹی کو دیں گے؟

’کوئی حکومت کچھ نہیں کرتی محض کھوکھلے نعرے لگاتے ہیں۔ کسی کو کچھ نہیں ملتا ہم اپنی محنت مزدوری کرتے ہیں اور پارٹی کو وقت دیتے ہیں۔ کسی سے کوئی آس نہیں بس اللہ کے آسرے پر جی رہے ہیں۔‘

اگر قوم کا سیاسی رویہ یہی رہا اور اس مرتبہ بھی روایتی سوچ ہی حاوی رہی تو آئندہ حکومت سے کسی مختلف کاکردگی کی توقع محض دیوانگی ہوگی کچھ اور نہیں ۔ تاہم اس مرتبہ تبدیلی کی خواہش رکھنے والوں کو اگر امید ہے تو نوجوانوں سے ہے۔
 
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/12/121210_political_parties_manifesto_rh.shtml?print=1

0 پوسٹ پر آراء:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر Ú©ÛŒ رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ Ú©Û’ کمپوٹر میں اردو Ú©ÛŒ بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے Ú©Û’ لیے ذیل Ú©Û’ اردو ایڈیٹر میں تبصرہ Ù„Ú©Ú¾ کر اسے تبصروں Ú©Û’ خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔