Monday, January 7, 2013

بلاول اپنی تقریر میں کرپشن اور بری حکمرانی کا ذکر بھول گئے

0 پوسٹ پر آراء
اسلام آباد ( عثمان منظور ) گڑھی خدا بخش میں اپنی تقریر میں بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ سالوں میں انکی پارٹی نے کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن وہ ان زمینی حقائق سے تغافل برتتے نظر آئے کہ گزشتہ ساڑھے 4 سال کے دوران بدترین کرپشن ‘ بری گورننس ‘ طویل لوڈشیڈنگ ‘ غربت کیساتھ اندرونی و غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ‘ قومی ملکیتی ادارے تباہ ہوئے اور 11 کروڑ سے زائد پاکستانی غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہیں۔ غالباً جواں سال بلاول کو یہ نہیں بتایا گیا کہ کرپشن پیپلزپارٹی کی حکومت میں فیشن رہی ہے اور ایسے شرمناک روپ میں کہ کابینہ کے وزراء بھی ایک دوسرے پر کھلے عام انگلیاں اٹھا رہے ہوں۔ پیپلزپارٹی کا ساڑھے 4 سالہ دور حکمرانی ملکی تاریخ میں کرپشن اور بری گورننس کے حوالے سے تاریخ کا بدترین عرصہ رہا ہے۔ جس میں ماضی سے کرپشن کے ریکارڈ توڑے گئے اور دنیا کی کرپٹ ترین اقوام میں پاکستان کا درجہ بڑھنا شروع ہوا۔ کرپشن پر کوئی روک ٹوک نہ رہی جبکہ قومی احتساب بیورو اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی جیسے انسداد بدعنوانی کے ادارے کرپشن ختم کرنے کی بجائے کرپٹ لوگوں کے شانہ بشانہ رہے۔ یہ ادارے بااثر ملزموں کے حق میں شواہد کو مسخ کرکے انہیں بچانے کیلئے انکی مدد کرتے رہے۔ مشرف دور میں پاکستان کے کل عوامی قرضے 32 سو ارب سے بڑھ کر 67 سو ارب ہوئے مگر پی پی دور میں انکا بوجھ 14500 بلین ہو گیا۔ ڈالر کی قیمت 62 سے بڑھ کر 97 روپے ہوگئی۔ دیہی و شہری علاقوں میں 16 سے 18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کیساتھ بجلی کی فی یونٹ اوسط قیمت قریباً دگنی ہوگئی۔ 4 سال سے زائد عرصے کے دوران ملک بھر میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے علاوہ صرف کراچی میں ہزاروں افراد قتل ہوئے۔ دنیا میں کرپشن کیخلاف پیکار ممتاز بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 2012ء کیلئے 18 ویں سالانہ کرپشن درجہ بندی جاری کی جس میں 176 ممالک میں پاکستان 139 ویں نمبر پر تھا۔ پی پی کے دور حکومت میں پاکستان کو کرپشن ‘ ٹیکس چوری اور بری گورننس کے باعث 8500 ارب سے زائد کی کثیر رقم کانقصان اٹھانا پڑا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مطابق گیلانی حکومت کے دوران 2008ء میں 390 ارب ‘ 2009ء میں 450 ارب ‘ 2010ء میں 825 ارب اور 2011ء میں 1100 ارب کی کرپشن ہوئی۔ پتہ چلنے والے ان کرپشن کیسوں کا مجموعہ 2 ہزار 765 ارب روپے ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی وزیر خزانہ نے خود ایف بی آر میں سالانہ 500 ارب سے زائد کی کرپشن کی تصدیق کی جو چار سال میں 2 ہزار ارب روپے بنتی ہے ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 2010ء میں 315 ارب کی کرپشن کی نشاندہی کی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 2011ء تک 30 ماہ کے عرصے میں 115 ارب روپے کی ریکوری کی۔ گردشی قرضے 19 کروڑ سے زائد ہیں۔ کے ای ایس سی کو 2008ء سے غیر قانونی طور پر سالانہ 55 ارب کے بینیفٹس دیئے گئے۔ پی ایس او ‘ پی آئی اے ‘ پاکستان اسٹیل ملز ‘ ریلوے ‘ سوئی سدرن ‘ سوئی ناردرن گیس کمپنی جیسے قومی ادارے سالانہ 150 سے 300 ارب روپے ہضم کر رہے ہیں۔ 2008ء میں ٹیکس ٹوجی ڈی پی کی شرح 11 فیصد تھی جو بڑھنے کی بجائے 2011ء میں کم ہو کر 9.1فیصد ہوگئی۔ چیئرمین نیب ایڈمرل ( ر ) فصیح بخاری نے بھی اعتراف کیا کہ کرپشن سے ملک کو یومیہ 12 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے 2011ء کے سروے کے مطابق کم آمدن ‘ معاشی بدحالی اور مہنگائی کی وجہ سے 58 فیصد پاکستانی ( 10 کروڑ 40 لاکھ افراد ) کو خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ 2011ء میں اسلامی ترقیاتی بینک نے خبردار کیا کہ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال تشویشناک ہو چکی ہے جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 10 کروڑ پاکستانی غذائی بحران سے دوچار ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں سے لیکر روز مرہ استعمال کی اشیاء ‘ خوردونوش کی چیزیں اور پٹرولیم مصنوعات سب چیزیں تقریباً دگنی مہنگی ہو چکی ہیں۔ مثال کے طور پر ادارہ شماریات کی اوسط قیمت کے انڈکس کے مطابق چینی 26 روپے سے 73 روپے کلو ‘ آٹا ( گندم کا اوسط معیار کا ) ساڑھے 16 روپے کلو سے 33 روپے‘ چائے 250 گرام پیکٹ 65 روپے سے 131 روپے‘ فارمی مرغی 71 روپے کلو سے 120 روپے کلو ‘ بڑا گوشت 122 روپے کلو سے 267 روپے کلو اور چھوٹا گوشت 2008ء میں 234 روپے کے مقابلے میں 484 سے 510 روپے کلو ہو چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت کے میگا سکینڈلز یہ ہیں۔ نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ ( NICL) اسکینڈل جس میں یوسف رضا گیلانی کے دوست ایاز خان نیازی کی چیئرمین شپ میں 5 ارب روپے کا غبن ہوا۔ حج اسکینڈل ‘ سپریم کورٹ نے حج معاہدوں میں گھپلوں پر سوموٹو نوٹس لیا اور ایک وفاقی وزیر کو اس کرپشن کیس میں جیل بھجوایا گیا۔ حج آپریشن میں اربوں کے گھپلوں کے کیس میں ایف آئی اے عدالت عظمیٰ کو چکمہ دینے کی کوشش کر رہی ہے جس میں دیگر افراد کے علاوہ مبینہ طور پر یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی بھی ملوث ہیں۔ رینٹل پاور پلانٹ کیس : سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس کے فیصلے سے تقریباً 455 ارب کا نقصان بچایا جو کہ فراڈ پر مبنی ایسا منصوبہ تھا جس پر پیپلزپارٹی کی حکومت کو فخر تھا اور رینٹل پاور پلانٹس کی ایڈوانس اور انٹرسٹ کی مد میں دی گئی 8 ارب 68 کروڑ کی رقم واپس لی۔اسٹیل ملز اسکینڈل : پاکستان اسٹیل ملز جیسے پبلک سیکٹر ادارے سے صرف 2008-09ء کے دوران 22 ارب روپے لوٹے گئے اور اب 2012ء میں پاکستان اسٹیل ملز کے خسارے اور واجبات کا بوجھ 165 ارب روپے تک بڑھ چکا ہے۔ایفی ڈرین اسکینڈل : پی پی حکومت مین شامل افراد پر 7 ارب کے بین شدہ کیمیکل کی درآمد سے موٹی رقوم کمانے کا الزام ہے۔پاکستان ریلویز : پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے ملکی کاروباری برادری کو نہ صرف گیس اور بجلی سے محروم کرکے زک پہنچائی بلکہ ریلوے کو بھی جام کر دیا اور جہاں 2008ء میں پاکستان ریلوے کا خسارہ 17 ارب تھا۔ اب قریباً 100 ارب کے قریب پہنچ چکا ہے۔ پی آئی اے بھی اقربا پروری اور بااثر افراد کے رشتے داروں کی کلیدی عہدوں پر تقرریوں سے قریباً ڈوب چکا ہے اور اسکا خسارہ 40 ارب سے بڑھ کر 100 ارب ہو چکا ہے۔میرٹ اور قابلیت کے برخلاف کلیدی عہدوں پر چہیتوں کی تقرریاں پی پی حکومت کا طرہٴ امتیاز رہا ہے۔ وزیراعظم کے داماد راجہ عظیم الحق کی ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر تقرری ‘ عدنان خواجہ کی بطور ایم ڈی او ڈی جی سی ایل تقرری ‘ ایاز نیازی بطور چیئرمین این آئی سی ایل ‘ تھرڈ ڈویژن بیچلر عاطف کیانی کی بطور ڈی جی فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن تقرری اسکی چند مثالیں ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے گریڈ 21 کے 54 افسروں کو بغیر کسی میرٹ کے ترقی دی ان تمام ترقیوں کو سپریم کورٹ نے ختم کر دیا تھا۔
 
http://search.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=51083

0 پوسٹ پر آراء:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر Ú©ÛŒ رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ Ú©Û’ کمپوٹر میں اردو Ú©ÛŒ بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے Ú©Û’ لیے ذیل Ú©Û’ اردو ایڈیٹر میں تبصرہ Ù„Ú©Ú¾ کر اسے تبصروں Ú©Û’ خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔