Monday, January 7, 2013

کراچی میں قاتل دندناتے پھرتے ہیں‘ سندھ حکومت عدالتی فیصلوں پر عمل نہیں کر رہی : چیف جسٹس

1 پوسٹ پر آراء
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز+ این این آئی) سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں سندھ حکومت سے جامع رپورٹ طلب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود بھی فیصلے پر عمل نہیں ہوا تو توہین عدالت جائز ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ کراچی بدامنی کیس میں دیئے گئے احکامات پر مکمل طور پر عمل کرنا ہوگا، فیصلے کے ہر نقطے پر حکومت سندھ کو جواب دینا پڑے گا، رینجرز اور پولیس نے کراچی میں نوگوایریاز ختم کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی، عملدرآمد ہو چکا ہے تو دستاویزات سے ثابت کریں، احکامات پر ایک 110 فیصد عمل کرنا ہوگا، کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے اس لئے امن و امان ضروری ہے، کراچی کو بچانا ہے تو دیانت داری سے کوششیں کرنا ہوں گی، کراچی میں جیسے قتل و غارت ہو رہی ہے سمجھ نہیں آتی کہ آئی جی کیسے سویا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں سندھ حکومت سے جامع عمل درآمد رپورٹ مانگ لی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ قاتل موٹر سائیکلوں پر دندناتے پھر رہے ہیں مگر سندھ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلوں پرعمل نہیں کررہی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی بدامنی سے متعلق عدالتی حکم پر عمل درآمد سے متعلق بہت سی رپورٹس آچکی ہیں۔ آخری حکم نامہ 28 نومبر کو صادر ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ان تمام احکامات کا کیا نتیجہ نکلا؟ کیا تمام فیصلوں پر عمل درآمد ہوگیا؟ کیا کراچی میں تمام نو گو ایریاز ختم ہوگئے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں حد بندیاں کرنا تھیں۔ نو گو ایریاز ختم اور پولیس کو سیاست سے پاک کیا جانا تھا۔ ان تمام احکامات پرعملدرآمد ضروری ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ہم نے پولیس کو سیاست سے پاک کر دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ پولیس والوں کی ترقیاں اب بھی سیاسی بنیادوں پر ہو رہی ہیں۔ ڈی ایس پی براہ راست بھرتی کئے جا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رینجرز اور پولیس نے ذمہ داری اٹھائی تھی کہ نوگو ایریاز ختم کئے جائیں گے۔ کیا فیصلے پر 100 فیصد عمل ہوگا؟ اگر عدالتی فیصلے پر سو فیصد عمل ہوگیا تو کیا کراچی کا امن بحال ہوگیا، کراچی ملک کا معاشی مرکز ہے، وہاں امن قائم ہونا چاہئے۔ سندھ حکومت کیخلاف حاجی عدیل کی توہین عدالت کی درخواست بھی آچکی ہے۔ تمام احکامات پر عملدرآمد نہ ہوا تو توہین عدالت کا مقدمہ آگے چلے گا۔ عدالتی احکامات کا کیا نتیجہ نکلا، کیا تمام فیصلوں پر عملدرآمد ہوگیا؟ دستاویزات سے ثابت کریں کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد ہوگیا۔ سابق آئی جی سندھ واجد درانی نے اعتراف کیا کہ پولیس سیاست زدہ ہوچکی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کراچی میں امن و امان کیلئے کئے گئے اقدامات کے بارے میں اعداد و شمار سے بتائیں۔ کیا کارروائی کی گئی، کیا کامیابیاں ملیں، کہاں ناکامی ہوئی؟ کراچی کیس سے متعلق آخری حکم نامہ 28 نومبر کو صادر ہوا تھا۔ حکم نامے میں حب الوطنی اور وطن کے احترام کی بات بھی کی تھی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آدمی سمجھے تو جھنڈا، نہ سمجھے تو ڈھائی گز کپڑا ہے۔ یہ حالات صرف کراچی میں نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا 14 دسمبر کے حکم نامے میں پوچھا گیا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ دوبارہ کیوں تیز ہوگئی؟ جب کراچی سے متعلق فیصلہ آیا تو وہاں ہر کسی نے اسکی پذیرائی کی اسکے باوجود ٹارگٹ کلنگ کیوں نہیں رکی؟ اگر آپ بلوچستان کے متعلق بات کرینگے تو اسکے حالات بھی بتا دیں گے۔ عدالت کے اس سوال کا جواب نہیں آیا کہ عدالتی فیصلے کی ہر سطح پر پذیرائی ہوئی لیکن سندھ حکومت عمل نہیں کررہی۔ ایک سال بعد بھی کراچی کا حال جوں کا توں ہے۔ میونسپل کارپوریشن اور سول ڈیفنس میں کام کرنیوالوں کو پولیس میں بھرتی کیا گیا۔ حکومت نے تماشہ بنایا ہوا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ حکام کیخلاف توہین عدالت کی درخواست آئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ تو شولڈر پروموشن کے تحفظ کیلئے آرڈیننس لیکر آئے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ شولڈر پروموشن حاصل کرنیوالے 5 ہزار اہلکاروں کی تنزلی کردی گئی۔ جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ اس عمل سے پولیس سیاست سے پاک ہوگئی؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا اب سیاسی بنیادوں پر تقرریاں نہیں کی جا رہیں، سیاسی بنیادوں پر آنیوالے اہلکاروں کو متعلقہ محکموں میں بھجوا دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جرائم ہر بڑے شہر میں ہوتے ہیں، اسلحہ سے پاک کرنے کیلئے قانون سازی کیوں نہیں کی گئی۔ کلاشنکوف رکھنا قابل ضمانت جرم ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ شہر میں بھتہ خوری ہو اور بوری بند نعشیں ملیں۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت پر پولیس کیا کررہی ہے۔ کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ گواہوں کے تحفظ کیلئے قانون سازی کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا صحافی کے قتل کے تمام گواہوں کو چن چن کر مار دیا گیا۔ امریکہ میں بچوں کے سکول میں بھی 19 بچے مار دئیے گئے، لندن میں بھی فسادات ہوئے مگر دیکھیں کہ ملزموں کے ساتھ کیسے نمٹا گیا۔ موجودہ قانون پر عملدرآمد نہیں ہو رہا نیا قانون کیا کرے گا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ پولیس ایک ملزم پر 100 افراد کا قتل ڈال دیتی ہے۔ عدالت نے سندھ حکومت سے کراچی بدامنی کیس میں جامع عملدرآمد رپورٹ طلب کی۔ چیف جسٹس نے کہا عملدرآمد سے متعلق ہم ایک سال بعد بھی زیرو پر کھڑے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا کراچی سے بھتہ خوری ختم ہوچکی؟ ایڈیشنل ہوم سیکرٹری وسیم احمد نے جواب دیا کہ عدالت کے حکم کے بعد بھتہ خوری میں بتدریج کمی آئی ہے، یہ بیان نہیں دے سکتا کہ بھتہ خوری ختم ہوگئی۔ اگر پہلے 10 شکایات آتی تھیں تو اب صرف 2 آتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کاروباری شخصیات نے سمجھوتہ کرلیا ہوگا کہ پولیس کچھ نہیں کررہی، چپ ہو جاﺅ۔ ایم کیو ایم ارکان کی طرف اشارہ کرکے چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی والے یہاں بیٹھے ہیں، وہ بتائیں کہ کیا کراچی سے بھتہ خوری کا خاتمہ ہوگیا۔ ایم کیو ایم ارکان نے ہاتھ اٹھا کر بھتہ خوری ختم ہونے سے انکار کا اظہار کیا۔ عدالت نے سید محمود اختر نقوی کو فریق بننے کی اجازت دیدی۔ محمود اختر نے الزام لگایا کہ وسیم سیہڑ نامی شخص بھتہ خوری اور جوئے کے اڈے چلانے میں ملوث ہے۔ وسیم سیہڑ آﺅٹ آف ٹرن ترقی پانے والا سپاہی ہے۔ ڈی آئی جی کرائم سرکل بشیر میمن نے کہا کہ وسیم سیہڑ طاقتور شخص تصور کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ڈی آئی جی ثناءاللہ عباسی کے سوا کسی کو جرا¿ت نہیں ہوئی کہ وسیم سیہڑ کا نام لے سکے۔ وسیم سیہڑ جیسے اور بھی بہت پولیس میں ہوں گے۔ پولیس کسی کو برقعہ پہنا کر 100 قتل کرنے کا الزام لگا دیتی ہے۔ ایسا ہے تو پولیس کو صرف 15 سے 20 آدمی ہی پکڑنا ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں کے دہشت گرد ونگ ختم ہونے چاہئیں۔ محمود اختر نے عدالت کو بتایا کہ درخشاں تھانے کا ڈی ایس پی پہلے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا افسر تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا واقعی وہ پہلے ای ٹی او تھا۔ ہوم سیکرٹری وسیم احمد نے جواب دیا جی یہ بات درست ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کیسے کہہ رہے تھے کہ تمام سیاسی تقرریاں ختم کردی گئیں۔ کیا حکم کے مطابق سیاسی جماعت میں شدت پسند ونگ ختم کرنے کیلئے خط لکھا۔ کراچی کو بچانا ہے تو دیانتداری سے کوششیں کرنا ہوں گی۔ کیس کی سماعت 22 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔ ثناءنیوز کے مطابق چیف جسٹس اور دیگر ججوں نے کہا کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے عدالت کو احکامات پر عملدرآمد کرانا آتا ہے۔
 
 

1 پوسٹ پر آراء:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر Ú©ÛŒ رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ Ú©Û’ کمپوٹر میں اردو Ú©ÛŒ بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے Ú©Û’ لیے ذیل Ú©Û’ اردو ایڈیٹر میں تبصرہ Ù„Ú©Ú¾ کر اسے تبصروں Ú©Û’ خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔