بی بی سی اردو ڈاٹ کام: پاکستان میں کراچی اور پشاور میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والے افراد پر منگل کے روز ہونے والے حملے پہلے نہیں
بلکہ اس سے قبل بھی یہ حملوں کا شکار رہے ہیں۔
ان ٹیموں کو نہ صرف شدت پسند تنظیموں سے خطرہ لاحق رہتا ہے بلکہ شدت پسندوں کے مخالفانہ پروپیگنڈے سے متاثرہ آبادیوں تک رسائی بھی رضاکاروں کے لیے خطرے سے خالی نہیں ہے۔
رواں سال بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیم پر پہلا حملہ سترہ جولائی کو کراچی کے نواحی علاقے سہراب گوٹھ کے قریب ہوا جب قطرے پلانے کی مہم کے دوران اقوام متحدہ کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس میں عالمی ادارہ صحت سے وابستہ ایک غیر ملکی ڈاکٹر زخمی ہوئے۔
ڈاکٹر کانسٹینٹ ڈیڈو پر اس وقت حملہ ہوا جب وہ بچوں کو قطرے پلانے کی مہم کے سلسلے میں سہراب گوٹھ کے قریب واقع کچی آبادی مچھر کالونی پہنچے تھے جہاں انہیں دو گولیاں لگیں تھیں۔
اسی نوعیت کا دوسرا واقعہ اکیس جولائی کو کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں ہی رونما ہوا جس میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے پر مامور عالمی ادارہ صحت کے ایک اہلکار اسحاق نور کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ پولیس
کے مطابق مسلح افراد نے انہیں ایک کلینک میں گھس کے گولیاں مار کر ہلاک کیا۔
0 پوسٹ پر آراء:
آپ بھی اپنا ØªØ¨ØµØ±Û ØªØریر کریں
اÛÙ… اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی ØªØ¨ØµØ±Û Ø³Û’ پرÛیز کیجئے, مصن٠ایسا ØªØ¨ØµØ±Û Øذ٠کرنے کا ØÙ‚ رکھتا ÛÛ’ نیز مصن٠کا مبصر Ú©ÛŒ رائے سے متÙÙ‚ Ûونا ضروری Ù†Ûیں۔اگر آپ Ú©Û’ کمپوٹر میں اردو Ú©ÛŒ بورڈ انسٹال Ù†Ûیں ÛÛ’ تو اردو میں ØªØ¨ØµØ±Û Ú©Ø±Ù†Û’ Ú©Û’ لیے ذیل Ú©Û’ اردو ایڈیٹر میں ØªØ¨ØµØ±Û Ù„Ú©Ú¾ کر اسے تبصروں Ú©Û’ خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔