Thursday, March 13, 2014

یااللہ! تھر کو حکمرانوں کا گھرکردے!...لاؤڈ اسپیکر…ڈاکٹرعامرلیاقت حسین

0 پوسٹ پر آراء

کچھ لوگ گھنے اور سایہ دار اشجار کی طرح ہوتے ہیں جو شدید طوفانوں کے باوجود ثابت قدمی سے اپنے مقام پر جمے رہتے ہیں اور کبھی نہیں اُکھڑتے ...اور کچھ لوگ ستاروں کی طرح ہوتے ہیں جو دن بھر سورج کا مقابلہ کرنے کے باوجود جگہ نہیں چھوڑتے اور رات آتے ہی چمک اُٹھتے ہیں۔
میں نے اِن درختوں اور ستاروں کو صحرائے تھر میں مصائب سے لڑتے دیکھا ،یہ سفر میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا...ہرمنزل سجدۂ شکر کی داعی تھی اور ہرقدم التفاتِ رب العالمین کا امین تھا...یہ درست ہے کہ تھر کے گوٹھوں اور دوراُفتاد آبادیوں میں بھوک ہے لیکن خدا کی قسم ہوس نہیں!
صبر اور شکر کی جو بہترین مثالیں میں نے دیکھی ہیں اُس نے کسی اور کو نہیں مجھ ہی کو شرمندگی کے دریا میں غرق کرڈالا...میں اِس قابل کہاں کہ پیدا کر کے پالنے والا کا شکر ادا کر سکوں،میں تو شکوے،شکایات سے لبریز داستانیں سنانے اور محرومیوں کا رونا رونے والا وہ ناشُکرا بندہ ہوں جسے اپنے سوا ہر کسی کے حالات بہتر نظر آتے ہیں، کھلانے والے نے ہمیشہ پیٹ بھر کے کھلایا اِسی لئے بھوک کیا ہوتی ہے نہیں معلوم!پلانے والے نے پیرہن حیات میں کبھی پانی کی’’کمیابی‘‘ کے پیوند نہیں لگائے اِسی لئے معلوم ہی نہیں کہ پیاس کیا ہوتی ہے؟رحمت کے سائے میں سنبھالنے والے نے عمر رفتہ کو قبر سے پیوستہ رکھنے تک گھر عطا فرمایا اِسی لئے بے خبر ہوں کہ ’’محرومیٔ چھت‘‘ کسے کہتے ہیں؟ پردے ڈالنے والے نے جسم بھی چھپایا اور عیوب بھی اِسی لئے ناواقف ہوں کہ ستر پوشی کے لئے جب پھٹے ہوئے کپڑوں میں پتَّے ٹانکنے پڑیں تو نفس کو کیسی تکلیف ہوتی ہے؟ نعلینِ پاک کے صدقے کبھی برہنہ پا نہیں رہا اِسی لئے اُن چھالوں کے درد اور تلووں کے زخموں سے نا آشنا ہوں جو گرم ریت میں ننگے پاؤں چلنے کی ’’زمینی سزا‘‘ ہے ...ذرائع سفر عطا کرنیوالے نے سواریاں مرحمت فرمائیں اِسی لئے ٹانگوں کی رفتار اور اُن کی تھکن کو ماپنے سے قاصر ہوں...لیکن...تھرپارکر کے گوٹھوں نے مجھے شکر کی تعلیم دی...’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘...اِس خوبصورت آیت کی جیتی جاگتی تصویریں اور تفسیریں میں نے وہیں دیکھیں اور پڑھیں...ملنے پر شکر اور نہ ملنے پر صبر کے ایسے دلکش نقوش نگاہوں کو خیرہ کر گئے جس نے مجھے میری اوقات یاد دلا دی اور بتلا دیا کہ اگر اپنی پوری زندگی بھی سجدوں میں گزار دو تو پروردگار کی کسی ایک نعمت کے ذرے کے ہزارویں حصے کا بھی حق ادا نہیں کر سکو گ۔
یہ باہمت اور شکرگزار بندوں کی ایک عجیب بستی ہے ،یہاں نہ پانی ہے نہ خوراک...اور اگر کہیں پانی ہے بھی تو ایسا کہ جانور بھی اُسے منہ نہ لگائیں، اِس کے صحرا کی دھرتی سے ایسے کڑوے، کسیلے اور زہریلے پودے اُگتے ہیں جنہیں مویشی کھانے سے ڈرتے ہیں حالانکہ مکمل ہرے بھرے ہوتے ہیں لیکن مویشیوں کو تو انتظار ہوتا ہے بارش کے بعد جنم لینے والے اُن میٹھے اور رسیلے پَّتوں کا جو اُن کے معدوں میں نسلوں کی پرورش کرتے ہیں...ہم مختلف مقامات پر گئے،امدادی سامان بہت زیادہ تو نہیں تھا مگر جذبوں کی وسعت کا دوسرا کنارہ بہرحال نظر نہیں آرہا تھا،جس نے بھیجا تھا اُسی نے اشیا میں برکت بھی ڈال دی ورنہ ہماری کیا حیثیت کہ ہم کسی کو گندم کا ایک خوشہ بھی کھلا سکیں...دینے والا بھی وہی اور رازق بھی وہی،ہم مرزوق تو اُس کے نوکر ہیں سو مالک جہاں چاہے اپنے ملازموں کو بھیج دے، اب یہاں غلاموں پر واجب ہے کہ اپنے ظرف کی حفاظت کریں اور اُسے ’’کم‘‘ نہ ہونے دیں...صرف اپنا ’’فرض‘‘ ادا کریں، جتائیں نہیں! اور اگر استطاعت ہے تو اُن کو اپنے ہاتھوں سے کھلائیں تاکہ روزِ حشر ہاتھ بھی یہ کہہ کر بخشش کی سفارش کرسکیں کہ ’’مالک! تیرے اِس گناہ گار بندے نے کچھ اچھے کاموں میں مجھے بھی شریک کرلیا تھا لہٰذا تیری ہی اجازت کے بعد تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ اِسے بھی اُن لوگوں میں شریک کر لے جنہیں تو نے بخش دیا ہے۔
مولانا محمدبشیر فاروق قادری صاحب بھی عجیب بشر ہیں،سیلانی ویلفیئرکا نام اپنی جگہ مگر جس سیلانی طبیعت کے یہ مالک ہیں اُس نے اُن سے میری عقیدت کی لکیر کو مزید گہرا کر دیا ہے... ویسے بھی میرے آقا کریم ﷺ کے ایک قولِ مبارک کے مفہوم کے مطابق ’’سفر سے بہترین کوئی کسوٹی ہی نہیں، ایک ساتھ بس سفر کیجئے اور اچھے اچھوں کو پرکھ لیجئے‘‘...اور پھر بزرگوں کی نصیحت بھی ہے کہ ’’اچھے وقت سے زیادہ اچھا ہم سفر عزیز رکھو کیونکہ اچھا ہمسفر بُرے وقت کو بھی اچھا بنادیتا ہے‘‘...اب مجھے نہیں معلوم کہ میرے مزید کتنے گناہ اُن کے سامنے افشا ہوئے مگر اُن کے مزاج سے پھوٹنے والی خیر کی کرنوں نے مجھے اور نئے راستوں کی خبر دی، پر پیچ حالات میں مسکرانے کا فن سکھایا، دنیا کی تمازت بھری دھوپ میں تقویٰ کی چادر اوڑھ کر ’’شدت‘‘ سے بچنے کا سلیقہ سمجھایا... اُنہوں نے کب چائے پی، کب کھانا کھایا اور کھایا بھی کہ نہیں کھایا میں نہیں جانتا!! لیکن اُنہوں نے جب بھی دعا کرائی یا خشک و بنجر زمین پر نمازِ اِستسقاء پڑھائی اُس نے مجھے یہ ضرور بتلایا کہ مولانا بشیر فاروق قادری صاحب کا شکم پرہیزگاری کے خوانوں کی لذت سے فیضیاب ہے۔
امی اکثر کہا کرتی تھیں کہ کسی کے لئے کچھ پکا کر کھلانے میں جو مزہ ہے وہ خود کھانے میں نہیں ہے ...اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ماں کا کہا غلط ہو! اِس کی چاشنی میں نے اُس وقت محسوس کی جب کم و بیش200افراد کے لئے میں نے چکن کڑھائی تیار کی اور جب اُنہیں اپنے ہاتھوں سے کھلایا تو اندازہ ہوا کہ خوشی اور اطمینان کن جذبوں کانام ہے...یہ موکھار بھیل گاؤں کے وہ ’’اَچھُوت‘‘ ہندو تھے جنہیں اِن کے اپنے ہم مذہب ،انسان سمجھنے سے بھی انکاری ہیں...اللہ کے تخلیق کردہ اِن بندوں کو ’’نیچ ذات‘‘ کا قرار دے کر اُن پر دائرہ حیات کو تنگ اور پابندیوں سے ہم آہنگ کردیاگیا ہے ...سہمی سہمی نظریں جن میں سیکڑوں سوال پوشیدہ ہیں اور مضطرب چہرے کہ جیسے سب کچھ کہہ دینا چاہتے ہوں اُس وقت مسرتوں کے جھونکوں سے لطف اندوز ہو ہی گئے جب اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف مہاراج لجپت کے مطابق کئی بَرسوں کے بعد کوئی ’’غیر قوم‘‘ کا فرد اِن کے پاس آیا اور اِن کے لئے کھانا بنانے میں ایسا مگن ہے کہ جیسے اپنے گھر والوں کے لئے اہتمام کر رہا ہو...مجھے اُن کی کہی یہ بات لکھنا اچھا نہیں لگ رہابلکہ شرمندگی محسوس ہورہی ہے اِسی لئے اللہ سے معافی مانگتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ سطریں آپ کی نگاہوں کی امانت بنانے کا مقصد اپنی تعریف و توصیف کا بھونپو بجانا نہیں بلکہ مقصودخالق و مالک کی یہ شان بیان کرنا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ،چاہے وہ اُس کی عبادت کریں یا نہ کریں(اُس طرح جس طرح وہ چاہتا ہے) مگراُن تک رزق ضرور پہنچاتاہے...اب اُس کے لئے بہانہ کوئی بھی ہو پَر بہانہ اہم نہیں ہوتاوہ ’’کھانا‘‘اہم ہوتاہے جو اللہ ہی نے بھوکوں تک پہنچوایا۔
آنے والے دو ماہ تھری باشندوں کے لئے ممکن ہے کہ مزید کٹھن اور آلام سے لبریز ہوں، حکمرانوں کو اپنی کرپشن اور بدانتظامیوں پر پردہ ڈالنے یا یہ کہنے کے بجائے کہ ’’صورتِ حال اِتنی سنگین نہیں تھی جتنا کہ اِسے میڈیا نے بنادیا‘‘ فوراً ہنگامی بنیادوں پر ممکنہ تکالیف سے نبردآزما ہونے کی تیاریاں کر لینی چاہئیں...تاویلات اور جواز کے اونٹوں پر بیٹھ کرغلطیوں کے پہاڑ کو شرمسار نہیں کیا جاسکتا! کوشش کیجئے کہ کسی کی آنکھ آپ کی وجہ سے نَم نہ ہو کیونکہ ایک دِن ایسا بھی ہے جس کی رات نہیں ہے اور اُس دن آپ کو ہر قرض چکانا ہوگا...اگر آپ طاقت اور اختیار کے باوجود شاہراہِ حیات پر خار کے بیج بونے میں مصروف رہیں گے تو یاد رکھئے گا کہ آنے والی آپ ہی کی نسلوں کو اِن راستوں سے گزرنا ہوگااور اُس وقت تک بیج ، خار بن جائیں گے جو آپ کے اپنے بچوں کے قدموں کو لہولہان کردیں گے … قو م سے آپ کا تعلق اُس کتاب کی طرح ہے جسے لکھنے میں پانچ برس اور تلف کرنے میں محض چند سیکنڈز لگتے ہیں...!!!
فی الحال تو تھر کی ایک غریب ماں کے بچے پُرسکون نیند سورہے ہیں کیونکہ ماں نے اُنہیں یہ کہہ کر سلادیا ہے ’’بچو! جلدی سے سوجاؤ،فرشتے خواب میں کھانا لے کر آئیں گے‘‘!!

روزنامہ جنگ سے

0 پوسٹ پر آراء:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر Ú©ÛŒ رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ Ú©Û’ کمپوٹر میں اردو Ú©ÛŒ بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے Ú©Û’ لیے ذیل Ú©Û’ اردو ایڈیٹر میں تبصرہ Ù„Ú©Ú¾ کر اسے تبصروں Ú©Û’ خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔