Thursday, March 13, 2014

مضبوط روپیہ اور عوامی توقعات

0 پوسٹ پر آراء


بدھ کے روز امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں نہ صرف مزید اضافہ ہوا ہے بلکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ڈالر اور بھی نیچے آئے گا۔ بہت سے لوگ وزیر خزانہ کی ’’مالیاتی جادوگری‘‘ کے قائل ہوگئے جنہوں نے نومبر 2013ء میں ایک ڈالر کے عوض 109 تک پہنچ جانے والے روپے کو 100کے عدد سے کم کی سطح پر لانے کا وعدہ اس طرح پورا کر دکھایا ہے کہ بدھ کے روز انٹر بینک میں ڈالر 2روپے 9پیسے کی کمی کے بعد 97روپے 90پیسے کی سطح پر آگیا ۔ پاکستانی کرنسی کی قدر میں اس اضافے سے عام لوگوں میں خوشی کی لہر پیدا ہوئی ہے اور یہ اعتماد نمایاں بڑھا ہے کہ ہم مشکل ترین صورت حال سے نکل سکتے اور اپنے حالات بہتر بناسکتے ہیں
جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستانی روپے کی یہ مضبوطی مصنوعی اور عارضی ہے۔ اقتصادی ماہرین کی بڑی تعداد پاکستانی کرنسی کی مضبوطی کو اسٹیٹ بینک کی طرف سےکئے گئے بعض اقدامات ، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر ، برآمدات میں اضافے اور ادائیگیوں میں تاخیر کے باعث امپورٹ بلوں میں ہونے والی کمی کے علاوہ عالمی منڈی کے رجحانات کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے اور عام لوگ بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ روپے کی قدر میں اضافے کے نتیجے میں پٹرولیم مصنوعات، خوردنی تیل اور خشک دودھ سمیت بہت سی چیزوں کی قیمتوں میں کمی آئے گی جبکہ وزیر خزانہ آلو ، ٹماٹر وغیرہ کے نرخوں میں کمی کی نوید اپنی بدھ کے روز کی پریس کانفرنس میں سناچکے ہیں۔ یہ پریس کانفرنس دراصل یکم جولائی 2013ء سے 28؍فروری 2014ء تک ملکی معیشت کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرنے کیلئے کی گئی تھی اور اس میں شرح نمو، افراط زر ، ترسیلات زر، غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر ، بیرونی تجارت اور صنعتی ترقی سمیت مختلف اشاریوں سے یہ بتایا گیا تھا کہ موجودہ مالی سال کے ابتدائی آٹھ مہینوں میں، جو موجودہ حکومت کے بھی ابتدائی آٹھ مہینے ہیں، ملکی معیشت میں بہتری آئی ہے۔ تاہم روپے کی قدر کا معاملہ ان سب اعداد و شمار پر حاوی رہا۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ روپے کی مضبوطی کے باعث ملکی قرضوں میں 800 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ خوشخبری بھی سنائی ہے کہ ڈالر کی قیمت میں کمی کا فائدہ عوام کو دیا جائے گا مگر یہ ظاہر ہے کہ مذکورہ فوائد عوام تک یک لخت پہنچنا ممکن نہیں ہیں۔ اس میں کچھ وقت لگے گا۔ ڈالر کی قیمت موجودہ سطح پر برقرار رہنے یا اس سے نیچے آنے کی صورت میں جہاں پٹرول سمیت درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں کمی آنے کی توقعات ہیں وہاں روپے کی قدر میں تیزی سے اضافے نے بیرونی تجارت کرنے والوں کے لئے کئی مسائل بھی پیدا کئے ہیں۔ کراچی ، لاہور، سیالکوٹ ، فیصل آباد ، کوئٹہ اور پشاور سمیت مختلف شہروں کے برآمد کنندگان کو تشویش ہے کہ انہوں نے بیرون ملک جو سودے ڈالر کی بڑھی ہوئی قیمتوں کے حساب سے کئے ہیں، ان کا معاوضہ ڈالر کے نرخوں میں اچانک اور تیزی سے کمی کے باعث جب روپے میں تبدیل کیا جائے گا تو ان کا منافع نقصان بدل جائے گا۔ ان تاجروں کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ اسی طرح امپورٹرز کو درآمدی سامان کی قیمتوں میں اچانک 3فیصد کمی کے باعث اربوں کے نقصان کی شکایات ہیں ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر خزانہ درآمدی و برآمدی تاجروں کے ساتھ میٹنگ کرکے ان کے مسئلے کا کوئی حل نکالنے کی تدبیر کریں۔ موجودہ حکومت نے بلاشبہ جرأت مندانہ اقدامات کے ذریعے روپے کی قدر کو مستحکم کیا ہے لیکن اشیاء کی پیداواری لاگت کم کرنے کے لئے لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے جیسے اقدامات کے علاوہ قیمتوں پر کنٹرول مستحکم بنانے کی تدابیر بھی کرنا ہوں گی کیونکہ ہمارے ہاں آٹا اور گندم سستا ہونے کے باوجود روٹی سستی کرنے اور پٹرول سستا ہونے کے باوجود ٹرانسپورٹ کرایوں میں خوشدلی سے کمی کرنے کا رجحان نہیں پایا جاتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ غریبوں کو روزمرہ کی چیزیں سستے داموں فراہم کرنے کا مستقل میکنزم بنایا جائے تاکہ ان کے لئے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا قدرے آسان ہوجائے۔

لیاری پھر لہولہان!
کراچی کا علاقہ لیاری بدھ کو ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا گینگ وار کا رندے اندھا دھند فائرنگ، راکٹ لانچروں اور بم حملوں سے انسانی خون سے ہولی کھیلتے رہے جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 16 بے گناہ افراد جاں بحق اور 3 رینجرز اہلکاروں سمیت 27 زخمی ہو گئے پولیس اور رینجرز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بابا لاڈلہ گروپ کے 6 کارندوں سمیت 8 گینگ وار جرائم پیشہ ملزموں کو ہلاک کر کے بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کر لیا کراچی میں پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن ابتداء میں کافی کارگر ثابت ہوا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ دو کروڑ سے زائد آبادی کا یہ عظیم شہر اور پاکستان کا معاشی حب آہستہ آہستہ امن و استحکام کی جانب لوٹ آئے گا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر نے بھی نئے سرے سے صف بندی کرلی ہے اور اب کوئی دن قتل و غارت کے بغیر نہیں گزرتا۔ لیاری کے علاقے میں مجرموں کے مختلف گروہ روزانہ لاشیں گرانے اور لوٹ مار میں مصروف ہیں یہاں ایک عرصہ سے آپریشن جاری ہے لیکن اس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے گینگز کے سربراہ وارداتوں کے بعد بھاگ جاتے ہیں اور بے گناہ یا کمزور لوگ پکڑے جاتے ہیں\۔جرائم پیشہ گروہوں کی آپس کی لڑائیوں اور مار دھاڑ نے اس علاقے کی تجارتی و سماجی سرگرمیوں کو مفلوج کر رکھا ہے غریب دیہاڑی دار مزدور بیوی بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی بھی کما نہیں پاتے حکومت کو یہاں امن و امان قائم کرنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کے ساتھ ساتھ علاقے کی پسماندگی دور کرنے کے لئے خصوصی ترقیاتی پیکیج کا اعلان کرنا ہو گا جس میں تعلیم، صحت اور روزگار پر زیادہ توجہ دی گئی ہو تا کہ یہاں خون خرابے کا کلچر تبدیل اور لوگوں کی توجہ صحت مندانہ سرگرمیوں کی جانب مبذول ہو اس مقصد کے لئے جتنا بھی بجٹ درکار ہو اس کے استعمال سے گریز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جس طرح پاکستان کا امن کراچی کے امن سے وابستہ ہے اسی طرح کراچی کے امن کا انحصار بھی لیاری جیسے علاقوں کی حالت بدلنے سے وابستہ ہے۔

عمران بھی اسی کشتی کے سوار 
بدھ کے روز وزیراعظم نواز شریف نے بغیر کسی پروٹوکول کے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی رہائش گاہ کا دورہ کر کے انہیں طالبان سے براہ راست مذاکرات کے دوسرے دور کو نتیجہ خیز بنانے اور اس کے لئے نئی کمیٹی کی تشکیل کے بارے میں اعتماد میں لیا ۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی دوسری بڑی پارٹی کے سربراہ مسلم لیگ ن کے شدید ناقد سمجھے جاتے ہیں۔ ان سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اجتماعی قومی مفاد میں ملاقات ایک ایسا لیڈر ہی کر سکتا ہے جو انا کے خول سے نکل کر معروضی حالات کے مطابق فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔اس وقت طالبان کے حوالے سے وطن عزیز فکری اعتبار سے دو فریقوں میں بٹا ہوا ہے ایک دھڑا طالبان سے کسی قسم کے مذاکرات کو لاحاصل اور ضیاع وقت سمجھتے ہوئے ان کے خلاف طاقت کے استعمال کو ہی واحد حل سمجھتا ہے جبکہ دوسرے کا خیال یہ ہے کہ جب بڑی بڑی جنگوں کا اختتام بھی بالآخر ڈائیلاگ اور مکالمے کی میز پر ہی ہوتا ہے تو اس حربے کو پہلے ہی کیوں نہ استعمال کر لیا جائے تاکہ خون کا مزید ایک قطرہ بہائے بغیر قیام امن کے مطلوبہ مقصد کو حاصل کیا جا سکے۔ طالبان سے مذاکرات کو نتیجہ خیز منزل تک پہنچانے کی راہ میں اگرچہ بے شمار مشکلات حائل ہیں اور بعض اندرونی و بیرونی دشمن ان کو ناکام بنانے کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں لیکن ایسی ہی شدید رکاوٹوں کے باوجود اگر بات چیت کے پہلے مرحلے کو کامیابی سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے تو اس کے دوسرے فیز کی نتیجہ خیزی کے بارے میں بھی پُر امیدی کوئی غیر دانشمندانہ عمل نہیں بشرطیکہ دونوں اطراف خلوص نیت سے اسے منزل تک پہنچانے کی جدوجہد کریں۔ نواز شریف اور عمران خاں کی ملاقات سے مذاکراتی عمل کو قابل ذکر تقویت ملی ہے اور ان کی جانب سے مذاکراتی عمل کی غیر مشروط حمایت سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر طالبان نے بھی اسی جذبے سے مذاکرات کو آگے بڑھایا تو انشاء اللہ اس سے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔

0 پوسٹ پر آراء:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر Ú©ÛŒ رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ Ú©Û’ کمپوٹر میں اردو Ú©ÛŒ بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے Ú©Û’ لیے ذیل Ú©Û’ اردو ایڈیٹر میں تبصرہ Ù„Ú©Ú¾ کر اسے تبصروں Ú©Û’ خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔